انور مسعود
انور مسعود 8 نومبر 1935 سن عیسوی میں گجرات، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گجرات سے حاصل کی بعد ازاں جب آپ کے والد صاحب کے کاروباری سلسلے لاہور چلے گئے تو آپ بھی فیملی کے ہمراہ گجرات سے لاہور چلے آئے۔ والد صاحب کے کاروباری نقصان کے بعد آپ لاہور سے واپس آ کر گجرات آ گئے۔ وہیں سے تعلیم کا سلسلہ پھر سے جوڑ لیا، ایف اے کا امتحان پاس کیا اور کالج میں پہلی پوزیشن کے ساتھ سکالر شپ بھی حاصل کی۔ بی اے میں فرسٹ کلاس اور سلور میڈل کے ساتھ ایک بار پھر سے سکالر شپ حاصل کی۔ مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور کنجاہ کے پرائیویٹ سکول میں ملازمت کر لی۔ اورئینٹل کالج سے ایم اے فارسی کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ آپ آپ اپنے تدریسی کیریئر کے دوران پنجاب بھر کے مختلف شہروں کے کالجوں میں فارسی کے استاد کے فرائض انجام دیتے رہے۔
ادبی پس منظر
آپ کی نانی محترمہ کرم بی بی بھی شاعرہ تھیں جو عاجز کے تخلص سے شاعری کیا کرتی تھیں، ان کا ایک شعری مجموعہ ’’گل و گلزار‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ آپ کے تایا محترم عبداللطیف افضل صاحب بھی پنجابی و اردو کے شاعر نامور تھے۔ آپ کا خاندانی پس منظر اس بات کا غماز تھا کہ آپ کے ننھیال و ددھیال کا ادبی ماحول آپ کی شاندار شخصیت کو پروان چڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوا۔
پیشن گوئی
استاد محترم کہا کرتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان میں ایک امام مسجد کو اپنا زائچہ دکھایا، اس نے اسے دیکھ کر کہا؛ ’’آپ کو اتنی عزت اور شہرت ملے گی جس کے بارے میں آپ اس وقت سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔
ہمہ جہت شخصیت
انور مسعود شاعری کی دنیا کا ایک بلاشبہ بہت بڑا نام ہیں۔ شاعری میں ان کے ایک استاد چوہدری افضل حسین نے انہیں پنجابی میں شاعری کا مشورہ دیا۔ مزاحیہ اردو شاعری ہو یا سنجیدہ کلام یا قطعہ نویسی ان کی ایسی پہچان بن چکی ہے جو دنیا کے ہر کونے میں پہنچی ہوئی ہے۔ آپ اردو، پنجابی کے ساتھ فارسی کے بہترین شاعر اور ادیب بھی ہیں۔ دنیا بھر میں شاعروں کی نظامت کا کام بھی بطریق احسن نبھا چکے ہیں۔ انور مسعود ایک معروف شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ مختلف زبانوں میں اظہار خیال کا فن جانتے ہیں۔ میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں ان جیسا صاحبِ علم و دانش، لفظوں کا پارکھ، وسیع المطالعہ جید سکالر، عوامی نباض اور اعلیٰ پائے کا استاد کہیں نہیں دیکھا۔
تصنیفات
میلہ اکھیاں دا (پنجابی شاعری) (پنجاب رائٹرز گلڈ انعام یافتہ)
ہُن کیہ کریئے (پنجابی شاعری) (ہجرہ انعام یافتہ)
شاخ تبسم (اردو)
غنچہ پھر لگا کھلنے (اردو)
میلی میلی دھوپ (اردو)
اک دریچہ اک چراغ (اردو)
قطعہ کلامی (اردو قطعات)
فارسی ادب کے چند گوشے (مقالے)
تقریب (تعارفی مضامین؛ اردو)
درپیش (مزاحیہ اردو)
بات سے بات (مضامین)
صرف تمہارا (اردو)(صدیقہ انور کے نام خطوط)
باریاب کلام (اردو نعتیہ کلام)
بازیافت
روز بروز
پایان سفر نیست
کلیات انور مسعود
درج بالا تصنیفات کے علاوہ آپ نے میاں محمد بخش کی سیف الملوک کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ؛ ’’سیف الملوک کا ترجمہ کرنے میں مجھے تین سال لگے، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا‘‘۔ آپ نے حکومت پنچاب کے زیر اہتمام اس کے دس ہزار اشعار کا ترجمہ اردو میں کیا، بلاشبہ سیف الملوک کو اردوانے کا کام ایک گراں قدر کام ہے۔
آپ کی نظم ’’بنیان‘‘ سن کر یقیناً آپ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے۔
اگر آپ ’’امبڑی‘‘ سنیں کے آپ کے آنسو نہیں تھمیں گے۔
بقول استاد انور مسعود جی کے ’’میری شاعری میری حسرت کا اظہار ہے۔‘‘
آپ کہا کرتے تھے کہ؛ ’’میں بیمار ماں کے لیے دوائی کا انتظام نہ کر سکتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب نے دنیا ترک کر دی تھی، اس لیے گھر کی ذمہ داری نہ لی اور یوں ساری ذمہ داریاں میرے اوپر آ گئیں‘‘۔
ملکی حالات بارے کہا کرتے ہیں کہ؛ ’’میں جس ملک میں رہتا ہوں اس کا دکھ میرا دکھ ہے۔ میرا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ہم نے جو فلاحی مملکت بنانی تھی، وہ نہیں بن سکی، جاگیرداری اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی‘‘۔
کبھی کبھی کلاس میں حسرت سے کہا کرتے تھے کہ؛ ’’جب آم کھانے کی حسرت تھی تب جیب اجازت نہیں دیتی تھی اور اب جب مالی حالات بہتر ہوئے ہیں تو شوگر کی وجہ سے آم نہیں کھا سکتا‘‘۔
نمونۂ کلام؛
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوارِ گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے
یہ رونے کو چھپانا ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تو نے پوچھا ہے مجھے درد کہاں ہوتا ہے
اک جگہ ہو تو بتاؤں کہ یہاں ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی ہو جائے مسلمان تو ڈر لگتا ہے
مولوی پھر نہ بنا دے اسے کافر بابا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان پہ مٹی ضرور ڈالیں گے
جو مسائل بھی سر اٹھائیں گے
سوچتا ہوں کہ چوہدری صاحب
اتنی مٹی کہاں سے لائیں گے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرا لکھاں دا وکدا تکیہ
جے ہنجواں دا مل پیندا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کون سُنے لفظاں دِیاں چِیکاں کون پڑھے اخباراں
مانواں دے کئی بال ایانے، چُک کھڑے خرکاراں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمت کرئیے
تاں رب دیوے
اج دِیاں گِٹکاں
کل دے میوے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.