نسرین انجم بھٹی
نسرین انجم بھٹی 26 جنوری 1943سن عیسوی کو کوئٹہ بلوچستان میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد محترم کا نام بنیامین بھٹی تھا۔ نسرین بھٹی نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی، آپ کا بچپن سندھ کے شہر جیکب آباد، سندھ میں گزرا۔ ان کے گھر کے ادبی ماحول نے آپ کی شاعری و ادبی فن کو نکھار بخشا۔ نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) میں آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ 1968 میں لاہور کالج فار وویمن سے فائن آرٹس میں بی اے کیا۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج پنجاب سے1969 میں ایم اے اردو کیا۔1971 میں ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔ 1994 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پنجابی میں ایم اے پاس کیا۔ 2001 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے میں وویمن اسٹڈیز میں پوسٹ گریجویشن ڈپلومہ حاصل کیا۔
نسرین انجم بھٹی نے نو سال کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی، جو بچوں کے مشہور پاکستانی رسالہ "تعلیم و تربیت" میں چھپتی رہی تھی۔ کالج دور میں کالج میگزین کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ انہوں نے اردو، انگریزی، سندھی اور پنجابی میں نظمیں کہیں، لیکن ان کی شہرت کی وجہ پنجابی اور اردو شاعری ہی رہی۔ نسرین انجم بھٹی کا سب سے بڑا اعزاز ان کا مزاحمتی ادب رہا ہے۔ نسرین انجم بھٹی کی شاعری عہدِ حاضر کے نسائی ادب کی سرخیل اور مزاحمت کا سرچشمہ کہی جا سکتی ہے۔ نسرین بھٹی نے شاعری اور تراجم کے علاوہ زمانۂ طالب علمی میں ہی روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز سے صحافت بھی کی۔
نسرین انجم بھٹی کو 2015 میں کینسر کا موذی مرض تشخیص ہوا، آپ کچھ عرصہ سی ایم ایچ لاہور میں کیمو تھراپی کے سلسلے میں زیر علاج رہیں۔ بعد ازاں آپ علاج کے لیے کراچی منتقل ہو گئیں جہاں وہ پی این ایس ہسپتال میں زیر علاج رہیں۔ آپ کینسر کے موذی مرض کا شکار ہو کر 28 جنوری 2016 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔
ایوارڈز و اعزازات
جمہوریت ایوارڈ دیا 1991*
قومی ادبی ایوارڈ 1993*
امیر خسرو ایوارڈ*
مسعود کھدر پوش ایوارڈ 2010*
کلچرل ایوارڈ (انڈیا) 2006*
ہنس راج مہیلا مہا ایوارڈ (انڈیا) 2006*
قومی ثقافتی ایوارڈ*
بینظیر میڈل 2009*
تمغۂ امتیاز حکومت پاکستان 2011*
تصانیف
نسرین انجم بھٹی پنجابی اور اردو کی بادشاہ گر شاعرہ تھی اور وہ بیک وقت اردو میں باقاعدگی سے محدودے چند شاعرات میں شامل ہیں۔ وہ کئی زبانیں بول اور لکھ سکتی تھیں لیکن وہ ماں بولی کی زبردست حامی تھیں اور اسے اظہار کا بہتر ذریعہ سمجھتی تھیں۔ انہوں نے پانچ کتابیں تحریر کیں، جن میں سے تین پنجابی اور دو اردو زبان میں ہیں۔ نسرین انجم بھٹی نے متعدد ناول اور کتابوں کے انگریزی، اردو، سندھی اور پنجابی میں تراجم بھی کئے ہیں۔
پنجابی کتب
نیل کرائیاں نیلکاں (پنجابی شاعری) 1979*
اٹھے پہر تراہ (پنجابی شاعری) 2009*
شاملاٹ (پنجابی شاعری)*
اردو کتب
بن باس (اردو شاعری)*
تیرا لہجہ بدلنے تک (اردو شاعری)*
پنجابی نمونۂ کلام؛
کون پروہنا آیا سنگدا
دل نہ دیوے، اکھیاں منگدا
بھیناں! اوتھے سورج اُگدا
بی بی! جیہڑے پاسوں لنگھدا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بھٹو دی وار
میں مرزا ساگر سندھ دا میری راول جنج چڑھی
میں ٹُریا سُولی چُم کے مینوں ایہو رِیت بڑی
میں پِیواں بھر بھر چُلیاں زہر تریہاں لڑی
چولے لتھے انصاف دے خلقت حیران کھڑی
میں اِک پیڑھی دا سُورما تے اٹھاں دا سردار
میں اُڈ اسمانیں چلیاں تے میرا نام اُڈار
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چوراں دے سر سِنگ نیں سائیں
سادھاں دے سر جُوؤاں
یاراں دے سر سدا تلی تے
ہوراں نوں کی سار
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اردو نمونۂ کلام؛
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحیفے اترنے سے پہلے اور نبیوں کے نزول کے بعد
ہاتھ سے گرے ہوئے نوالوں کی طرح ہمیں کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا رہا
اس درمیان، آنکھوں کے نیچے ہم نے اپنے ہاتھ رکھے
کہ وہ پاؤں پر نہ گر پڑیں اور کانچ کا اعتبار جاتا رہے
مجھے آگ سے لکھ اور پانی سے اگا
مٹی کے ساتھ انصاف میں خود کروں گی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جتنی دیر میں تم ایک آہٹ سے اترتے ہو
اور سویر سے اپنی پلکیں اکٹھی کرتے ہو
اتنی دیر میں ایک نظم بن چکی ہوتی ہے
نظم جس کی آنکھوں سے لوبان کی خوشبو اور پلکوں
سے نم ٹپکتا ہو
اور وہ اپنی پہچان کے لئے خود اپنا وسیلہ بنے
لیکن اگر اس کے بعد کے وسیلے زیادہ معتبر ٹھہریں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بارش دیکھتی ہے کہ اسے کہاں برسنا ہے
اور دھوپ جانتی ہے کہ اسے کہاں نہیں جانا
مگر وہ جاتی ہے اور شکار ہوتی ہے
اور کانٹوں میں پھنس کر بٹ جاتی ہے
اور ریت کے ذروں کی طرح
زمین سے اٹھائی نہیں جاتی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.