Wednesday, 14 June 2023

شریف کنجاہی(شخصی و علمی تعارف و حالات زندگی)

 شریف کنجاہی

پروفیسر ڈاکٹر شریف کنجاہی 13 مئی 1914 کو کنجاہ، گجرات، پنجاب (متحدہ ہندوستان)میں پیدا ہوئے، کنجاہ کا تاریخی قصبہ اب پاکستان میں واقع ہے۔ شریف کنجاہی کا اصل نام محمد شریف تھا، آپ کے والد محترم کا نام غلام محی الدین تھا جو ایک جانے مانے ماہر تعلیم تھے۔ آپ کے نانا محمد دین صاحب علامہ محمد اقبال کے پہلے نکاح کے گواہ بھی تھے۔ آپ مشہور شاعر، کالم نگار اور صحافی منو بھائی کے ماموں بھی ہیں۔ آپ نے 21 جنوری 2007 کو وفات پائی اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں آباہی قصبے کنجاہ کے صوفی بزرگ غنیمت کنجاہی کے مزار کے احاطہ میں دفن کیا گیا۔

تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں

آپ نے ابتدائی تعلیم کنجاہ سے ہی حاصل کی، 1930 میں میٹرک کا پاس کیا۔ آپ نے گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جہلم سے ہائر سیکنڈری کا امتحان پاس کیا۔ سال 1947 میں آپ نے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل اور بی اے کا امتحان کیا۔ بی اے کی تعلیم  مکمل کرنے کے بعد آپ نے لاہور ہی سے بی ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ آپ نے 1954 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اردو اور اور 1956 میں ایم اے فارسی کی ڈگری حاصل کی۔

عملی زندگی و علمی خدمات

عملی زندگی کا آغاز آپ نے بطور مدرس کیا اور پنجاب بھر کے مختلف سکولوں میں بطور معلم تعینات رہے۔ 1959 میں گورنمنٹ کالج کیمبلپور (موجودہ اٹک) میں فارسی زبان کے لیکچرر کے طور پر متعین ہو گئے۔ چند سال بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج جہلم میں ہو گیا جہاں وہ طویل عرصے تک تعینات رہے اور یہیں سے 1973 میں بطور استاد ریٹائر ہو گئے۔ تدریسی عمل سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے 1973 سے 1980 تک پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نئے قائم ہونے والے پنجابی شعبے کے قیام سے لے کر اسے ایک کامیاب شعبہ بنانے تک قابل قدر خدمات انجام دیں۔ آپ کی اردو و پنجابی کی ادبی خدمات اور ترویج و ترقی کے لیے مختلف مصنفین نے آپ کی شخصیت پر دس کتابیں تحریر کی ہیں۔ بلاشبہ اردو پنجابی کے اس ممتاز ادیب، شاعر، ماہر لسانیات، محقق، مترجم اور معلم کو رہتی دنیا تک علمی و ادبی حلقوں میں سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ آپ کبھی گجرات کی ”المیر ٹرسٹ لائبریری“ جائیں تو آپ کو دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہو گی کیونکہ یہ لائبریری کئی کتاب دار، کتاب شناس، کتاب دوستوں کی عملی توجہ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ شریف کنجاہی نے نہ صرف اس کو ترتیب دینے کا کام سرانجام دیا بلکہ اپنے نجی کتب خانے کا بہت بڑا حصہ خود اس لائبریری کے لیے وقف کیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے اہل خانہ نے باقی ماندہ کتب بھی اس لائبریری کو عطیہ کر دیں۔

شاعری کی ابتدا

شریف کنجاہی جی نے شاعری کا آغاز 1930 میں کیا، ابتدا انہوں نے بطور اردو شاعر کی حیثیت سے کی۔ لیکن چونکہ پنجابی ہمیشہ سے ان کی پہلی محبت رہی تھی، اس لیے وہ جلد پنجابی شاعری کی جانب راغب ہو گئے۔ ان کی پنجابی شاعری کا پہلا مجموعہ گورمکھی رسم الخط میں ”جگراتے“ کے نام 1958 میں مشرقی پنجاب سے شائع ہوا، جسے 1965 میں پاکستان سے شاہ مکھی رسم الخط میں شائع کیا گیا، اس کتاب میں سینتیس نظمیں شامل ہیں۔ آپ کی شہرت سرحد کے دونوں جانب یکساں طور پر مقبول ہو چکی تھی، یہ کہنا بجا ہو گا کہ کہ آپ کی شاعری کے چاہنے والے مغربی اور مشرقی پنجاب دونوں جانب موجود ہیں۔ آپ کی شاعری کی دوسری کتاب ”اوڑک ہُوندی لو“ کے عنوان سے 1995 میں شائع ہوئی۔ شریف کنجاہی بلاشبہ جدید پنجابی شاعری کے بانیوں میں اونچے درجے پر فائز ہیں۔ شاعری، نثر اور ترجمے و تحقیق کی دنیا میں آپ کا نام اور مقام بین الاقوامی پہچان بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے علامہ اقبال کے لیکچرز ”مذہبی افکار کی تعمیر نو“ کا آسان اور عام فہم پنجابی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے، جس سے آپ نے یہ ثابت کیا کہ پنجابی زبان بھی انتہائی سنجیدہ فلسفیانہ خیالات کو فصاحت سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ آپ نے پنجابی الفاظ کے وسیع خزانے کو استعمال کر کے بہت سی نئی اصطلاحیں پیش کیں۔ شریف کنجاہی جی کی خدمات کے اعتراف اور اعزاز  کے طور پنجابی شاعری پنجاب یونیورسٹی کی ایم اے پنجابی کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ 

قرآن پاک کا پنجابی ترجمہ

بقول شریف کنجاہی جی کے ان کا سب سے اعلیٰ و ارفع شہکار پنجابی میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے عام فہم پنجابیوں کو قرآن پاک کے پیغام کو بہتر طور پر سمجھنے میں خاطر خواہ آسانی ہوئی۔ اس ترجمے کی آسان اور عام فہم پنجابی نثر کو پڑھیں تو ادراک ہوتا ہے کہ مترجم نے قرآنی پیغام کا اعلیٰ معیار برقرار رکھا ہے۔ ”القرآن الکریم“ کے عنوان سے سادہ اور رواں پنجابی زبان میں دو جلدوں میں شائع ہونے والا قرآنی ترجمہ موجودہ وقت کا ایک بہترین عطیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

ایوارڈز و اعزازات

اردو اور خاص کر پنجابی ادب میں ان کی خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں "پرائڈ آف پرفارمنس" اور "ستارۂ امتیاز" سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ اہالیان شہر گجرات کی جانب سے انہیں "نشان گجرات" کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ عالمی پنجابی کانفرنس کی جانب سے پنجابی زبان کی ترویج کے لیے ان کی جانب سے کی جانے والی اعلیٰ خدمات کے نتیجے میں انہیں "لائف اچیومنٹ ایوارڈ" سے بھی نوازا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2008 میں حکومت کی جانب سے "شریف کنجاہی ایوارڈ" کا اجراء کیا گیا، جو ہر سال شعر و ادب کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔

تصانیف

شریف کنجاہی جی پنجابی، اردو، فارسی اور انگریزی زبان میں پینتیس عدد کتابوں کے مصنف ہیں۔

پنجابی شاعری کتب

جگراتے (پنجابی شاعری)*

اورک ہوندی لو (پنجابی شاعری)*

پنجابی نثری کتب

جھاتیاں (تنقید)*

شاہ دولہ دریائی*

تاریخ گجرات*

ساہواں دا ویڑہ*

رگ وید: اک جھات*

جپ جی: اک جھات*

مختصر پنجابی لغت*

لفظوں کی عینک میں*

اردو تراجم

ابیات فرید*

کہے فرید*

گلشن راز*

آزاد سماج*

ہیر وارث شاہ*

سوالات ملندہ*

آزادی کی راہیں؛ برٹرینڈ رسل کی کتاب ”روڈز ٹو فریڈم“ کا ترجمہ*

پنجابی تراجم

القرآن الکریم*

خطباتِ اقبال*

علم الاقتصاد*

جاوید نامہ*

پنج سورۂ*

نبیؐ پاک دے خطبے*

نمونۂ پنجابی کلام

مشر برہمن وید نہ جانن روگ اساڈے گجھے

گجھیاں لگیاں ہوئیاں نوں کوئی لگیاں والا بجھے

جس بے ترس نے اگے سانوں اتھوں تیک پوچایا

پٹھی مت والا دل ویکھو پھر اسے ول بھجے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کھیڈ لے میریے بھولیے دِھیے

کھیڈ لے گُڈیاں نال 

اپنیاں ضِداں اَڑیاں وی منوا لے چار دیہاڑے 

تیرا راہ مَل بیٹھے ہوئے نے کِنے وخت پواڑے 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رنگا رنگ نیں کپاہ دے پُھل وے

کِتے بخت نہ وِکدے مُل وے 

لیندے نہ خرید، پر جیویں ہانیاں

کریئے تے کریئے، کی وے ہانیاں

کرن نہ دیندے اُچی سی وے ہانیاں

ہنجھو چندرے نے پیندے ڈلھ وے

کِتے بخت نہ وکدے مل وے 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ترنجن وِچ چرخہ ڈاہ کے

ماہیا وے ماہیا

ہُن کُڑیاں کردِیاں گَلاں

مینوں سبھے کردیاں ٹوکاں

میں ککن اوہناں نوں روکاں

اوہ گجُھیاں رمزاں مارن

گھڑیاں نوں ڈوبن تارن

نمونۂ اردو کلام

تلاش جن کی ہے وہ دن ضرور آئیں گے

یہ اور بات سہی، ہم نہ دیکھ پائیں گے

یقیں تو ہے کہ کھلے گا، نہ کھل سکا بھی اگر

درِ بہار پہ دستک دئیے ہی جائیں گے

غنودہ راہوں کو تک تک کے سوگوار نہ ہو

تِرے قدم ہی مسافر! انہیں جگائیں گے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فضائے صحنِ گلستاں ہے سوگوار ابھی

خزاں کی قید میں ہے یوسفِ بہار ابھی

ابھی چمن پہ چمن کا گماں نہیں ہوتا

قبائے غنچہ کو ہونا ہے تار تار ابھی

ابھی ہے خندۂ گل بھی اگر تو زیر لبی

رکا رکا سا ہے کچھ نغمۂ ہزار ابھی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گلزار میں وہ رُت بھی کبھی آ کے رہے گی

جب کوئی کلی جور خزاں کے نہ سہے گی

انسان سے نفرت کے شرر بُجھ کے رہیں گے

صدیوں کی یہ دیوار کسی دن تو ڈھے گی

جس باپ نے اولاد کی بہبود نہ سوچی

اس باپ کو اولاد عیاں ہے جو کہے گی

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.