Monday, 12 June 2023

باقی صدیقی (شخصی و علمی تعارف و حالات زندگی)

 باقی صدیقی 

باقی صدیقی 20 دسمبر1905 کو راولپنڈی چھاؤنی کے نواحی گاؤں سہام قریشیاں، تحصیل و ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ اس وقت متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا، اب تو یہ راولپنڈی شہر کے اندر ایک گنجان آباد علاقہ بن چکا ہے۔ باقی صدیقی کا پیدائشی نام محمد افضل قریشی الہاشمی تھا، آپ کے والد محترم کا نام میاں احمد قریشی الہاشمی تھا جو نارتھ ویسٹ سٹیٹ ریلوے میں ملازم تھے۔ جب آپ شاعری کی جانب راغب ہوئے تو آپ نے باقی صدیقی کا قلمی نام اختیار کر لیا۔ باقی صدیقی صاحب کا انتقال 8 جنوری 1972 میں راولپنڈی میں ہوا اور آپ کو سہام قریشیاں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

ذاتی زندگی

باقی صدیقی صاحب نے ساری عمر مجرّد زندگی بسر کی اور شادی نہیں کی۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ مطلقہ ہمشیرہ اصغری خانم اور ان کی فیملی کو سہارا دینے میں بسر ہوا۔

شروعات زندگی

آپ کے والد برٹش راج میں شمال مغربی ریاست کے محکمۂ ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ آپ نے میٹرک کا امتحان گونمنٹ ڈینیز ہائی سکول راولپنڈی سے پاس کیا، جہاں آپ کے نانا قاضی فضل احمد بطور مدرس ملازمت کرتے تھے۔ باقی صدیقی صاحب نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ سکول میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔ 1932 میں آپ ممبئی منتقل ہو گئے اور فلم نگری میں پہلے پہل بطور اداکار کام کیا، جنگی موضوع پر بننے والی فلم توپ کا بچہ میں کوتوال کا کردار ادا کیا۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ آپ نے امپیرئیل فلم کمپنی میں ملازم ہو گئے اور فلم مرد کا بچہ کے لیے گیت بھی لکھے اور بطور مکالمہ نگار کام بھی کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں 1940 میں برطانوی فوج میں بطور کلیریکل سٹاف بھرتی ہو گئے۔ 1943 میں آرڈیننس ڈپو میں ٹرانسفر ہو گئے اور 1945 سے لے کر قیام پاکستان کے بعد 1949 تک ایم ای ایس میں خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ نے فوج کی ملازمت کو اپنے مزاج کے خلاف جانتے ہوئے استفعیٰ دے دیا اور اپنے آبائی علاقے میں واپس آ گئے۔ یکم ستمبر 1950 کو ریڈیو پاکستان راولپنڈی کا آغاز ہوا تو آپ اس سے وابستہ ہو گئے۔ باقی صدیقی کے ساتھ سید تصدق اعجاز، اختر امام رضوی اور سید اختر جعفری جیسی قد آور شخصیات نے نئے قائم کردہ ریڈیو پاکستان راولپنڈی سٹیشن کی سروسز کو پرواز چڑھانے میں اپنا بھرپور کردار نبھایا۔ پنڈی دیس اور جمہور نی واز اس زمانے کے مشہور و معروف پروگرام تھے جو کئی دہائیوں تک چلتے رہے، جمہور نی واز تو پچھلے 73 سال سے لگاتار براڈ کاسٹ ہو رہا ہے۔ آپ نے لگ بھگ اٹھارہ برس تک بطور شاعر، ادیب، ڈراما نگار، فیچر رائٹر اور صحافی کے خدمات انجام دیں۔ اس دوران انہوں نے اردو کے علاقہ پوٹھواری اور ہندکو زبانوں میں کئی عمدہ نغمے اور تمثیلچے لکھ کر شہرت دوام پائی۔ عمر کے آخری حصے میں آپ صحافت سے بھی منسلک ہو گئے تھے۔ لیکن آپ کی شہرت کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب مایہ ناز گلوگارہ اقبال بانو مرحومہ نے آپ کی شہرہ آفاق غزل داغ دل ہم کو یاد آنے لگے گائی تو اس کی شہرت دنیا بھر کے اردو شاعری کے چاہنے والوں میں پھیل گئی۔

شاعری

باقی صدیقی کے شاعری کا آغاز 1928 میں ہوا، شروع میں آپ نے جناب غلام نبی کامل کی شاگردی اختیار کی۔ ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے بعد آپ کی شاعری میں دن بدن نکھار آتا گیا اور آپ نے اردو زبان کے معروف شعراء محسن احسان، شوکت واسطی، احمد فراز، رضا ہمدانی، احسان دانش اور عبدالحمید عدم وغیرہ کی معیت میں مشاعروں میں شرکت کی اور جلد ہی آپ مشاعروں کی جان بن گئے۔ آپ کی شاعری کا کمال چھوٹی بحر کی غزلیں اور نظمیں تھیں۔ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران آپ کے حلقۂ احباب میں یوسف ظفر، رشید نثار، افضل پرویز، جمیل ملک، محبوب اختر، عبدالعزیز فطرت، ایوب محسن، صادق نسیم اور اختر امام رضوی شامل تھے۔

تصانیف

جام جم؛ (نظمیں اور غزلیں) سال اشاعت 1944*

دارورسن؛ سال اشاعت1951*

زخم بہار؛ سال اشاعت 1961*

کچے گھڑے؛ (پوٹھواری/ہندکو شاعری) سال اشاعت1967*

کتنی دیر چراغ جلا؛ سال اشاعت 1977*

زاد راہ (نشید)؛ سال اشاعت 1984*

کلیاتِ باقی صدیقی*

نمونۂ اردو کلام

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دِیے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم

عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

یہی رستہ ہے اب یہی منزل

اب یہیں دل کسی بہانے لگے

٭٭٭٭٭٭٭٭

دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا

کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا

باقی ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ

صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا

٭٭٭٭٭٭٭٭

یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیں

اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے

اب فقط ہاتھ اُٹھا دیتے ہیں

ایک دیوار اُٹھانے کے لئے

ایک دیوار گرا دیتے ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭

آستیں میں سانپ اک پلتا رہا

ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا

آپ تو اک بات کہہ کر چل دئیے

رات بھر بستر مرا جلتا رہا

ایک غم سے کتنے غم پیدا ہوئے

دل ہمارا پھولتا پھلتا رہا

٭٭٭٭٭٭٭٭

اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل

ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل

لفظوں کے پھولوں پہ نہ جا

دیکھ سروں پر چلتے ہل

دنیا برف کا تودا ہے

جتنا جل سکتا ہے جل

نمونۂ کلام پنجابی، پوٹھواری، ہندکو شاعری؛

میں ٹانڈا، تُوں ساوی چھَلّی

چار دیہاڑے قسمت رَلّی

فر اس دنیا دے جھمیلیاں وِچ

میں وی اکلّا، تُوں وی اکلّی

٭٭٭٭٭٭٭٭

وَگناں پیا سواں ڈھولا

چھوڑ نہ دیویں بانہہ ڈھولا

لہراں بھیت دِلے نے کھولے

وَٹے وَٹے اُتے بولے

تَینڈا مَینڈا ناں ڈھولا

وگناں پیا سواں ڈھولا

٭٭٭٭٭٭٭٭

نیھرا اکھیاں نُوٹ گِھنے

تے رات کرے ارمان

ہِک دُوئے آں ننگا کر کے

ہَسن جد انسان

٭٭٭٭٭٭٭٭

اُچیاں کنداں 

ڈک نہ سکُن

پُھلاں نی خشبو

٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.