طاہرہ سرا
طاہرہ سرا 17 جولائی 1978 میں منڈی ڈھاباں والا، صفدر آباد، ضلع شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ خالص پنجابی شاعرہ ہیں اور مرد شعراء کے مقابلے میں بے حد بااعتماد لہجے میں شاعری کے خزانے لٹانی نظر آتی ہیں۔ بیک وقت شاعرہ، ادیبہ، سوشل ورکر، میگزین ایڈیٹر اور مشاعرات کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیتی دکھائی دیتی ہیں۔
شاعری
طاہرہ سرا اپنی شاعری میں عورت کے حق تعلیم، معاشی و معاشرتی استحصال، قانون وراثت میں اس کے حقوق کی پائمالی، فرسودہ رسومات جیسی فرسودہ رسومات کے خلاف کھلے عام علمِ بغاوت بلند کرتی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ عورت کے تمام جملہ حقوق کے لیے صرف زبانی احتجاج ہی نہیں کرتی، بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں جا کر اپنی تیکھی شاعری کے ذریعے خواتین کو کچھ کر دکھانے اور مرد کے مقابلے میں با اختیار و خودمختار بن کر مقابلہ کرنے کی وکالت کرتی نظر آتی ہیں۔ طاہراسرا جہاں ایک طرف مرد کی فرعونیت پر چوٹ کرتی دکھائی دیتی ہے تو وہیں پر وہ ہر اس خود غرض عورت کے بھی خلاف لکھتی نظر آتی ہے جو اپنے مفاد کی خاطر مرد ذات سے دھوکا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے۔ اور وہ صاحباں کی مرزا جٹ سے کی بے وفائی پر اسے شرمندہ کرتے سے نہیں چوکتی۔ طاہرہ سرا جہاں عورت و مرد کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں، وہیں وہ غیر مسلم طبقے کے حق میں بھی آواز بلند کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
عورت کی جاندار آواز
طاہرہ سرا اپنی شاعری کے ذریعے بیک وقت امرتا پریتم اور نسرین انجم بھٹی جیسی قدآور شاعرات کی کمی کو پورا کرتی نظر آتی ہیں۔ اگر اردو پنجابی شاعری کی نمایاں شاعرات سے ان کا تقابل کیا جائے تو وہ بیک وقت امرتا پریتم، نسرین انجم بھٹی، سارہ شگفتہ، کشور ناہید اور پروین شاکر جیسی قدآور شاعرات کا خلا پُر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ادبی و سماجی خدمات
طاہرہ سرا “ترنجن ویلفئیر آرگنائزیشن” کی بانی ہیں، یہ آرگنائزیشن نہ صرف شہری و دیہاتی علاقے کی پسماندہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر کلچرل لیول کے مختلف پروگراموں کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ آپ کی چھوٹی بہن نورالعین سعدیہ جو کہ خود بھی بہت اچھی شاعرہ ہیں، اس آرگنائزیشن میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ طاہرہ سرا ہر سال مارچ کے مہینے میں صفدرآباد، شیخوپورہ میں ایک “بین القوامی پنجابی کلچرل فیسٹیول” کا اہتمام بھی کرتی ہیں، جس کے تحت پنجاب کے لوکل کھیلوں کے مقابلوں کے ساتھ ساتھ، پتلی تماشے، سمیت تھیٹر، بھنگڑا، گدا، فوک میوزک، اور مشاعرے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طاہرہ سرا “ساڈا پنجاب“ نامی پنجابی میگزین کی چیف ایڈیٹر بھی ہیں۔
اعزازات؛
شاہ چمن یادگاری ایوارڈ 2021*
تصانیف؛
شیشا*
بولدی مٹی*
نمونۂ کلام
امرتا پریتم دی ویل
پچھلی راتیں
جاگو میٹی سفنے وچ
امرتا مینوں کہ گئی اے
عشق کتاب دا اگلا ورقہ پھول دے
قبراں وچوں وارث شاہ نہیں بولدے
٭٭٭٭٭٭٭
اوہ کہندا اے نہ گبھراؤ، نہ گبھراؤ
روٹی دی تھاں مٹی کھاؤ، نہ گبھراؤ
اصل سکون تے قبر دے وچ ای ملدا اے
جیوندیاں تے وی مٹی پاؤ، نہ گبھراؤ
٭٭٭٭٭٭٭
لڑیا نہ کر
لڑ پینا ایں، زہر وکھالی دینا ایں
ایہ نہ ہووے
تینوں کھا کے مر جاواں
میں اک واری فر کہنی آں
لڑیا نہ کر
٭٭٭٭٭٭٭
میری مرضی میری نہیں
کی ایہہ ہیرا پھیری نہیں
ایسی تیسی وَٹیاں دی
دِھی جَمّی اے بیری نہیں
٭٭٭٭٭٭٭
چار سو مرد
اٹھ سو اکھاں
اٹھ سو ہتھ
جھلیے
تینوں نہیں سی پتا
جنسی گھٹن دے مارے لوک
آزادی دا جشن منا رہے سن
توں ازلاں دی غلام
اوتھے لین کیہ گئی سیں؟
٭٭٭٭٭٭٭
پہلی گل کہ ساری غلطی میری نئیں
جے کر میری وی اے، کی میں تیری نئیں
او کہندا اے پیار تے جنگ وچ جائز اے سب
میں کہنی آں؛ اوں ہوں، ہیرا پھیری نئیں
٭٭٭٭٭٭٭
نو مہینے کُکھے رکھاں
موت دے منہ چوں مُڑ کے جمّاں
رَت چنگھا کے پالاں پوساں
ولدیت دے خانے دے وچ اوہدا ناں
کیہڑا میرا کرے نیاں؟
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.