Monday, 26 June 2023

بن یار سانول بیو کو نہیں ہذا جنون العاشقین

 کلاسیک پنجابی شاعری


بن یار سانول بیو کو نہیں ہذا جنون العاشقین 

بے او نہ آنست و نہ ایں ہذا جنون العاشقین 


تھل بر تتی رلدی ہے کیوں 

سدھ واٹ توں بُھلدی ہے کیوں 

یار است ہمدم ہمنشین 

ہذا جنون العاشقین

 

کیا نار کیا گلزار وے 

کیا یار کیا اغیار وے 

او را بداں او را بہ بین 

ہذا جنون العاشقین 


مذہب وجودی فرض ہے 

بیو کل اجائی غرض ہے 

دیدیم با چشم یقین 

ہذا جنون العاشقین 


ڈینہ ہجر دے مُکلا گئے 

ویلھے وصال دے آ گئے 

جانم بجاناں شُد قریں 

ہذا جنون العاشقین

 

نہیں قال بے شک حال ہے 

پل پل اساڈے نال ہے 

نازک مزاج و نازنین 

ہذا جنون العاشقین 


واہ عشق ڈتڑی ڈات ہے 

تھئی رات سبھ پربھات ہے 

شد فرش دل عرش بریں 

ہذا جنون العاشقین 


خلقت کوں جیندی گول ہے 

ہر دم فرید دے کول ہے 

سوگند پیر فخرالدین 

ہذا جنون العاشقین 


خواجہ غلام فرید کوریجہ


خواجہ غلام فرید کے اس کلام کی خاص بات یہ کہ پہلے دومصرعے چار زبانوں کا مرکب ہیں، پہلے مصرعے میں پنجابی اور عربی، دوسرے مصرعے میں فارسی اور عربی کا امتزاج ہے۔ جبکہ بقیہ ہر بند کے پہلے دو مصرعے پنجابی، تیسرا مصرع فارسی اور چوتھا مصرع عربی زبان میں ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Note: only a member of this blog may post a comment.